English to Urdu: Urdu Translation of an excerpt from the Story generated by ChatGPT Detailed field: Poetry & Literature | |
Source text - English
The Three Friends and the Mystery of the Hidden Cave
Once upon a time, in a small village nestled in the rolling hills of the countryside, there lived three inseparable friends: Sara, George, and Oliver. From a young age, the trio had always been drawn to adventure and the thrill of exploring new and strange places.
They had spent their childhood in the same neighborhood and shared a strong friendship bond; enjoying each other's company in all activities. Whether it involved hiking, biking, kayaking, or camping, they experienced joy and amusement together. They liked to challenge themselves and each other, and they always looked for a chance to go on a thrilling expedition.
One sunny Saturday morning, they decided to hike in the woods near their village. They packed their backpacks with snacks, water bottles, maps and torches and set off on their bikes. They followed a dirt road that led them to the edge of the woods, where they locked their bikes to a tree and continued on foot.
The three friends walked along the winding trail, enjoying the fresh air and the sounds of birds and insects. They chatted and joked as they walked, but their eyes were always scanning the woods for something interesting or unusual. They had explored these woods many times before, but they always hoped to find something new or hidden.
They were not disappointed!
| Translation - Urdu ایک دفعہ کا ذکر ہے لہراتی بل کھاتی اُ ونچی نیچی ،سر سبز و شاداب پہاڑیوں میں گِھرے ایک گاؤں میں تین دوست رہتے تھے۔ سارا جارج اور اولیور۔ چھوٹی عمر ہی سے ان کی طبیعت مہم جو یانہ تھی۔ نئے اور پراسرار مقامات کی تلاش میں خود کو غیر معمولی اور سنسنی خیز حالات میں ڈالنا انہیں بے حد پسند تھا۔ ان کا بچپن ایک ہی محلے میں گزرا تھا اور اُ ن کی دوستی مثالی تھی ۔ ایک دوسرے کے ساتھ وقت بِتا کے وہ بہت خوش ہوتے ، تمام سرگرمیوں میں ساتھ ساتھ ہوتے اور اس سے بھرپور لطف اُ ٹھاتے ،چاہے وہ ہائیکنگ ہو یا سائیکل سواری ، کایاکنگ (کشتی رانی ) ہو یا کیمپنگ۔
انہیں خود کو اور ایک دوسرے کو چیلنج کرنا اچھا لگتا تھا اور وہ ہمیشہ کسی نہ کسی سنسنی خیز مہم پر جانے کا موقع تلاش کیا کرتے تھے ۔
ہفتے کی ایک چمکدار صبح انہوں نے طے کیا کہ وہ نزدیکی جنگل میں ہائیکنگ کے لیے جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بستوں میں کھانے کی کچھ چیزیں ،پانی کی بوتلیں ،نقشے اور ٹارچ رکھے اور اپنی سائیکلوں پر روانہ ہو گئے ۔وہ ایک کچی سڑک پر سفر کرتے رہے جو انہیں جنگل کے کنارے تک لے آئی جہاں انہوں نے اپنی سائیکلوں کو ایک درخت سے باندھا اور باقی کا سفر پیدل جاری رکھا۔ تینوں دوست بل کھاتے راستے پہ چلتے ہوئے تازہ ہوا اور پرندوں کی آوازوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اگرچہ وہ باتیں کرتے اور مذاق کرتے چل رہے تھے لیکن ان کی آنکھیں ہر دم کسی دلچسپ اور غیر معمولی چیز کو کھوج رہی تھی ۔وہ پہلے بھی کئی بار اس جنگل کو گھوم پھر کے دیکھ چکے تھے مگر ہر بار انہیں یہی اُ مید ہوتی کہ وہ کوئی نئی اور ان دیکھی چیز تلاش کر پائیں-
اس بار بھی وہ نا اُ مید نہ تھے!
|
English to Urdu: English to Urdu translation of an excerpt from a news article | |
Source text - English An Excerpt from the article published in ‘The Washington Post'.
https://www.washingtonpost.com/technology/2023/06/16/ai-photoshop-generative-fill-review/
AI is ushering Photoshopping into a new era, where you can alter an image in sophisticated and sometimes scary ways without mastering complex software. It’s far from perfect: You can remove an ex from a photo in just two clicks, though the hit-or-miss AI might replace that person with a different one whose face looks like it’s melting.
But this AI leap means anyone can pull off at least a goofy Photoshop job now. The same AI tool can both transform pictures into joyful fun and be used to manipulate or even exploit. And that adds new urgency to a question first raised by Photoshop more than 30 years ago: How much longer will we be able to trust what we see?
| Translation - Urdu مصنوعی ذہانت فوٹو شاپنگ کو ایک نئے دور میں لےکر جارہی ہے جہاں آپ ایک تصویر میں نہایت پیچیدہ، جدید اور نفیس اور کبھی کبھی خوفناک طرح کی تبدیلیاں کر سکتے ہیں اور اس کے لیے پیچیدہ سافٹ ویئر میں وسیع مہارت کا حاصل ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ اسے ابھی کامل طریقے سے کام کرنے میں بہت وقت درکار ہے۔آپ محض دو کلک میں ایک تصویر سے اپنے سابقہ پارٹنر (گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، شوہر یا بیوی) کو ہٹا سکتے ہیں۔ تا ہم ہو سکتا ہے یہ غیر منظم اور بے ترتیب اے آئی اُس شخص کو کسی دوسرے شخص سے تبدیل کر دے جس کا چہرہ بظاہر پگھلتا ہوا دکھائی دے رہا ہو۔ لیکن اے آئی کے اس بڑے قدم کا مطلب ہے کہ اب کوئی بھی فوٹوشاپ پر کم از کم کوئی ایسا کام تو کر ہی سکتا ہے جو با لکل بچکانہ ہو اور جس میں کوئی مہارت درکار نہ ہو ۔یہ ایک اے آئی ٹول تصویروں میں بیک وقت ایسی تبدیلیاں کر سکتا ہے کہ جس سے آپ خوش اور محظوظ ہوں۔ یا پھر ایسی تبدیلی کہ جس کے ذریعے لوگوں کو اپنی انگلیوں پہ نچا سکیں-یہاں تک کہ اسے ناجائز طور پر لوگوں کے استحصال اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ باتیں اس سوال کی اہمیت کو نئے سرے سے اجاگر کرتی اور اس کے فوری توجہ طلب ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو فوٹو شاپ نے 30 برس سے بھی زائد عرصہ پہلے اٹھایا تھا کہ "ہم جو دیکھتے ہیں اس پر کتنے عرصے تک اعتماد کرسکیں گے؟" |
English to Urdu: English to Urdu Translation- An Excerpt from JINNAH'S BIOGRAPHY | |
Source text - English An Excerpt from the Biography:
'JINNAH'
INDIA - PARTITION - INDEPENDENCE
by JASWANT SINGH
My quest for writing a political biography of Mohammed Ali Jinnah goes back a long way, but really as a thought, the seed of the idea lying dormant for many years, certainly until 1999, when fortuitous circumstances made its planting possible. This was during Prime Minister Atal Bihari Vajpayee's historical bus journey to Lahore in 1999. I accompanied the prime minister to Minar-e-Pakistan, (It is a 60-metre high tower to mark the place where the All India Muslim League adopted a resolution for the creation of Pakistan on 23 March 1940) returning from where I was struck by the thought there existed no biography of Jinnah written by a political figure from India. It was then that I decided to fill the gap; however, yet again, between that thought and subsequent action, the gap lengthened. It was only in 2004 when a processing of this work actually began. It was the period when I was out of office and had a fair amount of time to reflect, to research and to write. It is then that my first consultations also started; a large number of those, whom I spoke with, wondered why I was venturing on this path at all and as most well-wishers do, cautioned me against doing so. However, I persisted, for it was a journey of my own, of my re-discovery and a clearer understanding of why India had been partitioned in 1947. After much deliberation, I did venture forth, and now, finally, the 'book' is here. It has taken me five years to write, rewrite, check, crosscheck, seemingly an endless process.
| Translation - Urdu محمد علی جنا ح کی سیاسی سوانح حیات لکھنے کی میری جستجو بہت پرانی تھی۔ مگر حقیقتاً یہ خیال برسوں تک بس ایک خیال ہی رہا اور میں اسے عملی جامع نہ پہنا سکا ۔یہ سلسلہ 1999تک چلا جب خوش قسمتی سے کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے جنہوں نے میرے اس خیال کو عملی شکل میں ڈھالنا ممکن بنایا ۔یہ 1999 میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے تاریخی بس کے سفر کے دوران ہوا ۔ مینار پاکستان جاتے ہوئے میں وزیراعظم کے ہمراہ تھا (یہ ایک 60 میٹر بلند مینار ہے جو اس جگہ کی نشاندہی کرتا ہے جہاں 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کے قیام کے لیے ایک قرارداد منظور کی تھی ) جہاں سے واپسی پہ میرے ذہن میں اچانک یہ خیال آیا کہ جناح کی ایسی کوئی سوانح موجود نہیں جو کسی ہندوستانی سیاسی شخصیت نے تحریر کی ہو۔ تب ہی میں نے اس خلا کو پُر کرنے کی ٹھان لی ؛ تاہم خیال اور عمل کا درمیانی فاصلہ ایک مرتبہ پھر بڑھ گیا۔ اس کام کا آغازصحیح معنوں میں2004 میں ہوا۔ یہ وہ دور تھاجب میں کسی سرکاری عہدے پر فائض نہیں تھا اوراسی سبب میرے پاس تفکر، تحقیق اور تحریر کے لیے اچھا خاصا وقت تھا۔ جب ہی میری ابتدائی مشاورت بھی شروع ہوئی؛ جن لوگوں سے میری بات ہوئی ان کی ایک بڑی تعداد اس بات پر حیران تھی کہ میں نے یہ پُرخطر راستہ آخر کیوں اختیار کیا تھا اوراُنہوں نے مجھے ایسا کرنے سے خبردار بھی کیا ،جیسا کہ زیادہ تر خیر خواہ کیا کرتے ہیں ۔تاہم میں نہ رکا ۔کیوں کہ یہ میرا اپنا سفر تھا ، خود کو دوبارہ دریافت کرنے اور اس بات کی واضح آگاہی حاصل کرنے کا سفر کہ 1947 میں انڈیا کیوں تقسیم ہوا۔ بہت غور و خوض کے بعد میں نے اس کام کو کرنے کا خطرہ مول لیا اور بالآخر یہ کتاب اب تیار ہے۔ اسے لکھنے ،دوبارہ لکھنے ،جانچنے اور تصدیق کرنے میں مجھے پانچ سال لگے۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہو |